سندھ طاس معاہدہ کیا ہے

Malik
0

 

پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ 


 حالیہ دنوں میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں بھارت کی جانب سے قرار دیے جانے والے مبینہ دہشت گرد حملوں کے بعد بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا گیا ہے۔خیال رہے کہ اس حملے میں بھارتی میڈیا کے مطابق چھبیس سے زیادہ شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ 

تاہم پاکستان کی جانب سے ان حملوں کی مذمت کی گئی ہے۔ بھارت نے ماضی کی طرح ان حملوں کا الزام لگاتے ہوئے جہاں پاکستانی شہریوں کو بھارت چھوڑنے کا حکم دیا ہے وہیں پر سندھ طاس معاہدہ بھی معطل کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ پاکستان نے اس حملے کو بھارت کا فالس فلیگ آپریشن قرار دیا ہے۔ آئیے آج کے بلاگ میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سندھ طاس معاہدہ کیا ہے اور اس کا تاریخی پس منظر کیا ہے؟


Indus Water Treaty


پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) 1960ء میں طے پایا۔ یہ معاہدہ دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں کے پانیوں کے تقسیم کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد، دونوں ممالک کے درمیان آبی وسائل کی تقسیم ایک اہم تنازعہ بن گیا، کیونکہ دریائے سندھ کا نظام دونوں ملکوں کے لیے انتہائی اہم تھا۔  


پاک بھارت کے درمیان آبی مسئلہ کیا تھا؟


1947ء میں تقسیم ہند کے بعد، دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیاں (جہلم، چناب، راوی، بیاس، اور ستلج) دونوں ممالک میں بہنے لگیں۔ بھارت نے اپنے حصے میں آنے والے علاقوں میں ڈیم بنانے اور نہریں نکالنے کا کام شروع کیا، جس سے پاکستان کو خدشہ ہوا کہ بھارت پانی کا بہاؤ روک کر اسے نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس مسئلے نے دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کردی، جس کے بعد عالمی بینک کی ثالثی میں سندھ طاس معاہدہ طے پایا۔  


سندھ طاس معاہدے کے چیدہ چیدہ نکات  

1. دریاؤں کی تقسیم:

   مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) کا پانی بھارت کو دیا گیا۔  

  مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) کا پانی پاکستان کو دیا گیا۔ 


2. پاکستان کا حق: 

   بھارت مغربی دریاؤں پر محدود پن بجلی کے منصوبے بنا سکتا ہے، لیکن پانی کے بہاؤ میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا۔  

3. بھارت کے حقوق: 

   بھارت مشرقی دریاؤں پر مکمل کنٹرول حاصل کرے گا اور ان پر ڈیم بنا سکتا ہے۔  

4. ڈیٹا شیئرنگ:

   دونوں ممالک ایک دوسرے کو دریاؤں کے بہاؤ اور منصوبوں کے بارے میں معلومات دیں گے۔  

5. تنازعے کا حل: 

   اگر کوئی تنازعہ پیدا ہو تو پہلے دونوں ممالک باہمی بات چیت کریں گے، اگر حل نہ ہو تو ثالثی عدالت (Court of Arbitration) یا عالمی بینک کی مدد لی جائے گی۔  


Indus River System 


اس معاہدے کا ثالث کون بنا؟

سندھ طاس معاہدے کے لیے عالمی بینک (World Bank) نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔ عالمی بینک نے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کو آسان بنایا اور معاہدے کے مسودے کو حتمی شکل دی۔  


کیا ماضی میں بھارت یا پاکستان نے کبھی اس معاہدے کو معطل کیا؟  


سندھ طاس معاہدہ اب تک باقاعدہ طور پر معطل نہیں ہوا، لیکن کئی بار تنازعات پیدا ہوئے ہیں:  

2016ء میں، بھارت نے کشمیر میں دریائے جہلم پر باغلیہار ڈیم تعمیر کیا، جس پر پاکستان نے اعتراض کیا اور ثالثی عدالت سے رجوع کیا۔  

2019ء میں، پلوامہ حملے کے بعد بھارت نے دھمکی دی کہ وہ پاکستان کے حصے میں آنے والا پانی روک دے گا، لیکن عملی طور پر معاہدہ منسوخ نہیں کیا گیا۔  


سندھ طاس معاہدے کا زیادہ فائدہ کس ملک کو ہوا


سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) 1960ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پایا، لیکن اکثر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس معاہدے کا زیادہ فائدہ کس ملک کو ہوا؟ اس کا جواب دونوں ممالک کے نقطہ نظر اور معاہدے کے عملی نفاذ پر منحصر ہے۔  


1. پاکستان کے لیے فوائد  

مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) پر مکمل حقوق: 

  پاکستان کو دریائے سندھ، جہلم اور چناب کا 80% سے زیادہ پانی دیا گیا، جو ملک کی زراعت اور پانی کی ضروریات کے لیے انتہائی اہم ہے۔  

بھارت پر پابندیاں: 

  بھارت ان دریاؤں پر بڑے ڈیم نہیں بنا سکتا جو پاکستان کے حصے کے پانی کے بہاؤ کو متاثر کریں۔ وہ صرف محدود پن بجلی کے منصوبے بنا سکتا ہے۔  

بین الاقوامی ضمانت: 

  اگر بھارت معاہدے کی خلاف ورزی کرے تو پاکستان عالمی بینک یا ثالثی عدالت سے رجوع کر سکتا ہے، جیسا کہ باغلیہار ڈیم کے معاملے میں کیا گیا۔  


2. بھارت کے لیے فوائد  

-مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) پر مکمل کنٹرول:  

  بھارت کو راوی، بیاس اور ستلج جیسے دریاؤں پر مکمل حقوق حاصل ہیں، جنہیں وہ بغیر کسی پابندی کے استعمال کر سکتا ہے۔  

پن بجلی کے منصوبوں کی اجازت: 

  بھارت جہلم اور چناب پر "رن آف دی رور" (Run-of-the-River) ہائیڈرو پاور پروجیکٹس بنا سکتا ہے، جس سے اسے توانائی کے حصول میں مدد ملتی ہے۔  

جغرافیائی فائدہ:  

  چونکہ بھارت ان دریاؤں کے بالائی حصے پر واقع ہے، اس لیے وہ کسی حد تک پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کر سکتا ہے، حالانکہ معاہدے کی رو سے اسے پاکستان کے حصے کے پانی کو مکمل طور پر نہیں روکنا۔  


Indus river system 


3. کس ملک کو زیادہ فائدہ ہوا؟

پاکستان کا موقف:  

  پاکستان کا موقف ہے کہ چونکہ اس کی زراعت اور پینے کے پانی کا انحصار دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں پر ہے، اس لیے معاہدہ اس کے لیے زیادہ اہم ہے۔ اگر بھارت پانی روک لے تو پاکستان کو شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔  

بھارت کا موقف:

  بھارت کا کہنا ہے کہ اسے مشرقی دریاؤں پر مکمل حقوق ملے ہیں، لیکن مغربی دریاؤں پر اس کی ترقیاتی سرگرمیاں محدود ہیں، جس سے اسے کچھ نقصان ہوا ہے۔  

اگرچہ پاکستان کو دریاؤں کا زیادہ حصہ ملا ہے، لیکن بھارت کو بھی اپنے حصے کے دریاؤں پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ 

پاکستان کے لیے یہ معاہدہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس کی معیشت اور زراعت کا انحصار ان دریاؤں پر ہے۔بھارت کے لیے یہ معاہدہ اس لیے فائدہ مند ہے کہ اسے مشرقی دریاؤں پر مکمل آزادی حاصل ہے، جبکہ مغربی دریاؤں پر بھی محدود حد تک ترقیاتی کام کرنے کی اجازت ہے۔  

 اگرچہ پاکستان کو اس معاہدے کا زیادہ فائدہ ہوا ہے، کیونکہ اسے دریائے سندھ جیسے اہم ذرائع پر حقوق ملے ہیں، جو اس کی بقاء کے لیے ضروری ہیں۔ البتہ، بھارت بھی اس معاہدے سے محروم نہیں ہوا، کیونکہ اسے مشرقی دریاؤں پر مکمل اختیارات حاصل ہیں۔ اگر یہ معاہدہ نہ ہوتا، تو دونوں ممالک کے درمیان آبی جنگ چھڑ سکتی تھی، جو خطے کے لیے تباہ کن ہوتی۔ 


سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک اہم بین الاقوامی معاہدہ ہے جو کئی دہائیوں سے دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کو منظم کر رہا ہے۔ اگرچہ تنازعات کبھی کبھار سامنے آتے ہیں، لیکن یہ معاہدہ دونوں ممالک کے لیے ایک پائیدار حل فراہم کرتا ہے۔ مستقبل میں بھی اس معاہدے کی پاسداری دونوں ممالک کے مفاد میں ہے، کی

ونکہ پانی کا مسئلہ خطے کی سلامتی اور ترقی کے لیے انتہائی اہم ہے۔  

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !