پی آئی اے پیرس ایڈ
حال ہی میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز یعنی پی آئی اے نے یورپ کے لیے اپنی فلائٹس کو بحال کیا ہے۔ چار سال پہلے پی آئی اے کو پائلٹس کی جعلی ڈگریوں کے شک کی بنیاد پر سیفٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے یورپ میں پروازوں کی اجازت ختم کی گئی تھی۔
چار سال کے بعد اربوں روپے کے سالانہ خسارے کے بعد بالآخر پی آئی اے کو دوبارہ فلائٹ آپریشن جاری رکھنے کی اجازت مل گئی۔ اسی سلسلے میں پی آئی اے کی پہلی پرواز نے فرانس کے لیے پرواز بھری۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا اور پی آئی اے کے ساتھ ساتھ تمام پاکستانیوں کے لیے بھی یہ بہت خوشی کی بات تھی۔
![]() |
PIA Paris Ad |
یہ خوشی اس وقت ندامت اور شرمندگی میں تبدیل ہو گئی جب پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی جانب سے یورپ کی فلائٹس کی تشہیر کے لیے جاری کیا جانے والا اشتہار غیر معمولی تنقید کی ذد میں آ گیا۔
پی آئی اے کے اشتہار میں کیا آخر ایسی کیا بات تھی؟
اس اشتہار میں پی آئی اے کے جہاز کو اڑتا ہوا دکھایا جا رہا ہے۔ سامنے پیرس کا مشہور زمانہ ایفل ٹاور ہے اور پردے پر فرانس کا جھنڈا نظر آ رہا ہے۔ اشتہار پر انگریزی میں لکھا گیا ہے Paris We're Coming Today یعنی "پیرس ہم آج آ رہے ہیں"۔ بظاہر تو اس اشتہار میں کوئی خاص خرابی نظر نہیں آتی۔ لیکن جب آپ کے دن برے چل رہے ہوں تو آپ کا اچھا کام بھی برا بن جاتا ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ آپ کی کوئی بھی کامیابی آپ کے دشمنوں کو ہضم نہیں ہوتی۔
ابتدا میں بھارتی سوشل میڈیا صارفین نے اس اشتہار کو تنقید کرتے ہوئے اسے نیویارک میں ہونے والے 9/11 کے واقعات سے جوڑا۔ جو کہ بڑھتے بڑھتے وائرل ہو گیا۔ اور پھر کرتے کرتے بات انٹرنیشنل میڈیا تک جا پہنچی۔ دنیا کے تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے اس اشتہار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
پی آئی اے کے اشتہار پر سوشل میڈیا صارفین کی تنقید
اس اشتہار کے بعد پی آئی اے کی قابلیت اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر مزید سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ بیشتر صارفین نے اس اشتہار کو لے کر حکومت پر بھی دل کھول کر تنقید کی۔ اور آخر کار اس اشتہار کی باز گشت ایوان اقتدار تک بھی جا پہنچی اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اس اشتہار کے متعلق با ضابطہ انکوائری کرنے کی ہدایت دے دی۔
اسی اشتہار سے متعلق سوال کی وضاحت دیتے ہوئے اسحاق ڈار نے بھی اسے احمقانہ قرار دیا اور کہا کہ آپ اس اشتہار میں ایفل ٹاور کو اوپر یا نیچے بھی دکھا سکتے تھے۔ یا پھر جہاز کا رخ کسی اور طرف موڑ دیتے۔
بہرحال جو بھی ہو اس اشتہار کی وجہ سے نہ صرف پی آئی اے بلکہ پاکستان کو بھی عالمی سطح پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ حالانکہ پاکستان میں ہر لحاظ سے دنیا کے بہترین گرافکس ڈیزائنر موجود ہیں۔ کوئی عام سا ڈیزائنر بھی اسے بہتر طریقے سے ڈیزائن کر سکتا تھا۔
حالیہ برسوں میں یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پی آئی اے بین الاقوامی سرخیوں کی زینت بنا ہو۔ 2019 میں پی آئی اے نے اعلان کیا کہ وہ اپنے عملے کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے جن کا وزن زیادہ ہے۔ تقریباً 1,800 کیبن کریو میں تقسیم کیے گئے ایک میمو میں کہا گیا ہے کہ ان کے پاس مطلوبہ حد تک پتلا ہونے یا گراؤنڈ ہونے کا سامنا کرنے کے لیے چھ ماہ ہیں۔
2020 میں بھی پی آئی اے نے اپنے تقریباً ایک تہائی پائلٹس کو اس وقت گراؤنڈ کر دیا جب حکومتی تحقیقات نے انکشاف کیا کہ ملک بھر میں سینکڑوں پائلٹس کے پاس جعلی لائسنس تھے اور وہ پرواز کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ یہی وہ بنیادی وجہ تھی جس کے بعد پی آئی اے کو یورپی پروازیں منسوخ کرنا پڑیں۔